-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 1
/
premchand_ur_baby.txt
149 lines (32 loc) · 3.62 KB
/
premchand_ur_baby.txt
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
کفن
var startDt = Date.now();
var userEvts = [];
var currentLanguage = '3';
// init values
var requestPath ='/stories/kafan-premchand-stories';
var lang=3;
var rWorld= 'https://world.rekhta.org';
var cardsUrl = 'https://rekhtacards.azureedge.net';
var bundleurls={lg:'https://rekhtacdn.azureedge.net/contents/lgmdsm_ur?v=KboL2t1xj5Nok-78l130syBgIsrmEaNUY7i9vohWIMw1', md:'https://rekhtacdn.azureedge.net/contents/mdsm_ur?v=q6jI7eka22IKu36KeLasD7Y1-JsPtRt68PcUGw594Jc1', sm:'https://rekhtacdn.azureedge.net/contents/sm_ur?v=Rp0j-YKTOe5ROkBw0LpPmGyPA6VS7hrLZ6fhtSL_72I1' };
var favAddText = 'پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے';
var favRemText = 'اپنے پسندیدہ زمرے سے ہٹائیے';
var websiteId =1;
var maxAccessForRegistration = '5';
(function (i, s, o, g, r, a, m) {
i['GoogleAnalyticsObject'] = r; i[r] = i[r] || function () {
(i[r].q = i[r].q || []).push(arguments)
}, i[r].l = 1 * new Date(); a = s.createElement(o),
m = s.getElementsByTagName(o)[0]; a.async = 1; a.src = g; m.parentNode.insertBefore(a, m)
})(window, document, 'script', 'https://www.google-analytics.com/analytics.js', 'ga');
ga('create', 'UA-37442234-1', 'auto');
ga('send', 'pageview');
function setGAUser(userId) {
ga('set', 'userId', userId); // Set the user ID using signed-in user_id.
gtag('set', { 'user_id': userId }); // Set the user ID using signed-in user_id
}
کفن
پریم چند
کفن
پریم چند
MORE BY پریم چند
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔ گھیسو نے کہا، ’’معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سار ا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔‘‘ مادھو دردناک لہجے میں بولا، ’’مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔‘‘ ’’تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی۔‘‘ ’’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جا تا۔‘‘ چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا۔